حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں مسلمانوں پر ہوئے حملے کے خلاف ایران کی قیادت اور عوام میں بھی سخت برہمی پائی جاتی ہے۔ ایران کی اعلی قیادت کے بعد قم و ایران کے مذہبی ادارے حوزہ علمیہ کے اساتذہ نے بھی ان حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تنظیم براۓ اسلامی تعاون سے اس سلسلہ میں مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
حوزه علمیہ کے اساتذہ نے او-آئی-سی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کا اسلامی اور انسانی فریضہ کے طور پر دفاع کرے اور اس کے لئے وہ سبھی مواقع اور صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے جس سے کہ یہ تنازع ختم ہو اور ہندوستان میں سیاسی استحکام اور بقائے باہم پیدا ہو۔ حوزه علمیہ کے ذمہ داران نے اپنے بیان میں کہا ہے "کشیدگی میں اضافہ، نسلی جھگڑا، موجودہ حکومت کے قانون کے خلاف احتجاج اور اس احتجاج کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کے قتل نے خدشات میں اضافہ کردیا ہے"۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف نسل اور مذاہب کے لوگ ساتھ رہتے آئے ہیں اور اسے خون خرابے کی جگہ نہیں بنے دینا چاہیۓ"۔
حوزه علمیہ نے اپنے ملک کی وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملہ پر گہرائی کے ساتھ نگاہ رکھے اور سبھی سیاسی اور اخلاقی پہلوؤں کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے امن کا ماحول واپس لانے کی کوشش کی جائے"۔
حوزه علمیہ نے ہندوستانی حکومت سے اپنے شہریوں کے حقوق اور بین الاقوامی قانون کے احترام کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف مسلمانوں کے خلاف منظم حملے پر ایران میں شدید غم و غصہ کے اظہار اور ہندوستان کی جانب سے سفارتی طور پر سخت احتجاج کے بعد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے ہندوستان اور ایران کے رشتے متاثر نہیں ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے ۱۹۹۴ میں بابری مسجد کی شہادت اور ۲۰۰۴ میں گجرات کے اندر مسلم کش فسادات پربھی سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا، تاہم اس کے باوجود دونوں ممالک میں رشتوں پرکوئی اثر نہیں پڑا۔
ایران خطے میں ہندوستان کا سب سے قابل اعتماد دوست رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان صدیوں سے روابط رہے ہیں۔
ایران میں قدس فورس کے سربراہ جنرل سلیمانی کے امریکی حملے میں جاں بحق ہونے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جوادظریف نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔
دوسری طرف بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی میں ۲۰۰۹ء میں ہندوستان نے بھی ایران کے خلاف ووٹنگ کی تھی، لیکن ان باتوں کے باوجود دونوں ممالک کے رشتے متاثر نہیں ہوئے۔